Film Surreya bhopali
ثریّا بھوپالی
ڈائریکٹر: حسن طارق
پرڈیوسر: حسن شاہ
موسیقار: اے حمید
شاعر: سیف الدّین سیف
گلوکار: مہدی حسن، ناہید اختر،.منیر حسین
فنکار: شاہد، رانی، وحید مراد، حُسنہ، اسلم، عشرت چوہدری، بہار بیگم، الاوءالدین، طالش
پاکستانی فلم "ثریّا بھوپالی" 16 جولائی 1976ء کو ریلیز ہوئی
اس فلم کی کہانی ایک نواب زادے اور قوالی گانے والی طوائف کے گرد گھومتی ہے-
نواب زادہ یوسف راز (شاہد) جوکہ ایک شاعر تھا اور "ثریا بھوپالی(رانی)" مشہورِ زمانہ طوائف اور قوالہ جو کہ محفلوں میں نواب زادہ یوسف کا کلام گاتی اور خوب داد وصول کرتی تھی لیکن اس نے نواب زادہ یوسف کو کبھی دیکھا نہیں تھا بس ان دیکھے محبت کرتی تھی اور تنہائی میں بھی اس کا کلام گاتی رہتی تھی-
نواب زادہ یوسف اپنی سالگرہ پر ثریا بھوپالی کو مدعو کرتا ہے اور ادھر اپنے دوست دلدار(وحید مراد) کو دعوت دیتے وقت کہتا ہے کہ تیرا اور ثریا بھوپالی کا قوالی کا مقابلہ ہو گا-
سالگرہ والے دن ثریا بھوپالی
"شمع سے کہتا تھا پروانہ (مہدی حسن..ناہید
عشق حقیقت حسن فسانہ" اختر..منیر حسین)
گا کر میدان مار لیتی ہے جبکہ دلدار مقابلہ تو ہار جاتا لیکن اس کا پرستار ضرور بن جاتا ہے- محفل میں شریک سبھی مردوں کے دلوں میں وہ دھڑکنے لگتی ہے جبکہ عورتوں کے دلوں میں کھٹکنے لگتی ہے-
اخبارے والے ثریا اور نواب زادے کی باہم تصویریں چھاپ دیتے ہیں اور ساتھ داستانِ محبت بھی تحریر کرتے ہیں-
نواب زادہ یوسف اور اس کا دوست دلدار دونوں ہی اس پر فریفتہ ہو جاتے ہیں لیکن دلدار کو جب پتہ چلتا ہے کہ اس کا دوست نواب زادہ یوسف بھی ثریا کو چاہتا ہے تو وہ اپنی محبت کو سینے میں دفنا دیتا-
ایک دن نواب زادہ یوسف چپکے سے ثریا کے کوٹھے پر پہنچ جاتا ہے اور اسے اظہارِ محبت کے طور پہ پھول پیش کرتا ہے-
ابھی وہ وہیں ہوتا ہے کہ اخبار والے اور ماڈرن کلب کا مالک آ جاتے ہیں-
ان کے آنے کے بعد نواب زادہ وہاں سے چلتا بنا-اس کے جانے کے بعد تھیٹر کا مالک ثریا سے کہتا ہے کہ سالگرہ والے دن آپ نے نوابزادہ یوسف زاد کا کلام گا کر محفل ہی لوٹ لی تھی اور پھر اپنے پروگرام میں شرکت کی دعوت دیتا-
ثریا کو جب پتہ چلتا ہے کہ وہ جس یوسف کے گیت گاتی اور جسے اپنے من میں بسائے بیٹھی ہے اصل میں وہ نواب زادہ یوسف ہی ہے تو وہ بے قرار ہو جاتی ہیں اور اپنے استاد سے اصرار کرتی ہے کہ وہ یوسف کو بلائے-
ثریا سے ملنے کے بعد ماڈرن کلب کا مالک فیاض سیدھا نواب زادہ یوسف کے گھر جاتا اور اس کے باپ کو بتاتا ہے کہ آپکے نواب زادے اور ثریا بھوپالی کی داستانِ عشق کے چرچے ہو رہے ہیں اور ثبوت کے طور پہ اخبار پیش کرتا ہے- تب نواب زادہ یوسف پر ثریا بھوپالی سے ملنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے-
ادھر دلدار جب اپنے باپ (جو کہ ان کا استاد بھی تھا) کے سامنے ثریا بھوپالی کے فن کی تعریفیں کرتا ہے تو اس کا باپ آگ بگولہ ہو جاتا ہے اور اسے گھر سے نکال کر اپنی جائداد سے بے دخل کر دیتا ہے تو دلدار ایک باغیچے میں ڈیرے لگا لیتا ہے-
اگرچہ یوسف کے باپ نے اس پر ثریا سے ملنے پر پابندی لگا رکھ تھی لیکن پھر بھی جب وہ چوری چپکے ثریا سے ملنے کیلئے اس کے بالا خانے پر جاتا ہے تو
" تھا یقیں کہ آویں گی یہ راتاں کبھی
تیری میری ہویں گی ملاقاتاں کبھی" (ناہید اختر)
کچھ دنوں بعد نواب زادہ یوسف اپنے دوست دلدار سے ملنے جاتا تو وہاں دلدار کا باپ اسے بتاتا ہے کہ وہ ہمارے دشمن(ثریا بھوپالی) کا پرستار ہے لہٰذا ہم نے اسے گھر سے نکال دیا ہے اور تمام جائداد سے بھی عاق کر دیا ہے لیکن سنا ہے کہ آج کل کسی ویرانے میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہے-
یہ جان کر نواب زادہ یوسف دلدار سے ملنے کیلئے اس باغیچے میں پہنچ جاتا ہے.
اس گیت کے بعد نوابزادہ یوسف ثریا کو بتاتا ہے کہ آپ کے حسن اور آواز کے ایک پرستار دلدار کو آپ کی تعریف کرنے پر اسے اس کے باپ نے گھر سے نکال دیا ہے اور اپنی جائداد سے عاق بھی کر دیا اور اب وہ ہمارے ایک باغیچے میں رہتا ہے-تو ثریا اس سے ملنے کیلئے جاتی ہے اور اس سے گیت سنانے کی فرمائش کرتی ہے-
"نام نہ آئے تیرا پیار کی رسوائی میں
کاش! مر جاؤں کسی گوشئہِ تنہائی میں" (مہدی حسن)
کچھ دنوں بعد ماڈرن کلب کا مالک فیاض دورِ جدید کی گلوکارہ مس شہلا اور ثریا کے درمیان مقابلہ منعقد کرواتا
"دنیا نئی ہے، دور نئے آفتاب کا
اب تو ورق پلٹ دو پرانی کتاب کا"
یہ مقابلہ بھی ثریا اپنے نام کرتی ہے اور اس کے بعد کلب کا مالک فیاض ثریا سے اظہارِ محبت کرتا ہے لیکن وہ اسے گھاس بھی نہیں ڈالتی تب فیاض ثریا کو نیچا دکھانے کی ٹھان لیتا ہے-
دلدار کا باپ بھی اندر ہی اندر سے الگ رہا تھا اور ثریا بھوپالی کو نیچا دکھانے کیلیے ایک گلوکارہ مہتاب کو تربیت دے رہا تھا-
اس کو تربیت دینے کے بعد دلدار کے والد نے ماڈرن کلب کے مالک سے رابط کیا اور اس سے کہا کہ میرے پاس ایسا ہیرا ہے جو ثریا بھوپالی کو مات دے سکتا ہے چنانچہ اس گلوکارہ مہتاب اور ثریا بھوپالی کے مقابلے کی منادی کرادی جاتی ہے
ادھر نواب زادہ یوسف دنیا سے نظریں بچا کے دلدار کے باغیچے میں چوری چھپے ثریا سے ملاقاتیں کر رہا تھا اور وہ دونوں پیار بھرے گیت گا رہے تھے-
جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہیں (مہدی حسن
نہیں معلوم یہ خواباں ہیں کہ تعبیراں ہیں ناہید اختر)
اس ملاقات کے دوران ثریا نواب ذادے یوسف کو اس مقابلے میں شرکت کرنے کی دعوت دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر وہ نہ تو ثریا یہ مقابلہ ہار جائے گی-اتفاق سے نواب زادے کا باپ اسی دن اس کی منگنی کی تاریخ بھی مقرر کر دیتا ہے لیکن نوابزادہ اس منگنی کو ٹھکرا کرا ثریا کے مقابلے میں شرکت کیلئے پہنچ جاتا ہے-
"کاہے بیٹھے ہو نظراں چرائی کے"
یہ مقابلہ بھی ثریا اپنے نام کرتی ہے-
نواب زادہ یوسف کو کے باپ کو جب پتہ چلتا ہے کہ ان کا بیٹا ثریا بھوپالی سے ملاقاتیں کرتا ہے تو ایک دن وہ ثریا کے کوٹھے پہ آکر اپنے بیٹے نواب زادہ یوسف کو گو لی مار دیتا ہے جس سے نواب زادہ مرنے سے بچ تو جاتا لیکن زخمی ہو کر بے ہوش ہو جاتا ہے تب اسے اٹھا کر گھر لے جاتے ہیں لیکن وہ بے ہوشی کے دوران بھی ثریا کا نام لے رہا تھا-
نواب زادہ یوسف کی بے ہوشی کے دوران اسکی ماں ثریا بھوپالی کے پاس جاتی ہے اور اس روپے پیسے کی پیشکش کرتی ہے کہ وہ اس کے بیٹے کی زندگی سے نکل جائے لیکن ثریا اس پیشکش کو ٹھکرا دیتی ہے تب وہ نواب زادہ یوسف کی ماں ہونے کی حیثیت سے واسطہ دیتی ہے کہ وہ اس کی زندگی سے نکل جائے تب ثریا مان جاتی ہے اور کوٹھا چھوڑ کر دلدار کے پاس پہنچ جاتی ہے-
نواب زادہ یوسف کو جیسے ہی ہوش آتا ہے تو وہ ثریا سے ملنے کیلئے اس کے کوٹھے پہ ہہنچ جاتا لیکن وہاں ثریا کا استاد بتاتا ہے کہ وہ دلدار کے پاس ہے-
نواب زادہ یوسف وہاں پہنچتا ہے تو ثریا یوسف کی ماں سے کیئے ہوئے وعدے کے مطابق یوسف کی زندگی سے نکلنے کی ابتداء کر دیتی اور دلدار سے کہتی ہے کہ چونکہ اب نواب زادے کو اس کے باپ نے تمام جائیداد سے عاق کردیا تو وہ اب کنگال ہو چکا ہے اور ایک طوائف کو نواب زادے کی دولت سے پیار تھا نہ کہ اس نواب زادے سے.
ناچنے گانے والی کو ایک گانے والے سے ہی پیار ہونا چاہیے ناکہ کسی کنگال نواب زادے سے.....
نوابزادہ وہیں سے واپس مڑ جاتا ہے جبکہ دلدار کو خبر بھی نہ ہوئی کہ اس کا دوست بھی یہاں آیا تھا-
لیکن یوسف کے جانے کے ثریا دلدار کو تمام واقعات سے آگاہ کر دیتی ہے-
اتنے بڑا غم برداشت کرنے کی ثریا میں سکت نہ تھی جس کی وجہ سے وہ بیمار پڑ گئی اور ڈاکٹر نے ناچنے گانے سے سخت منع کردیا
ادھر نواب زادہ یوسف کو یقین ہو گیا تھا کہ ثریا بے وفا نکلی ہے اور اس کا دوست غدار تو اس نے اپنے باپ کی خواہش کے مطابق شادی کی تیاریاں کرنے لگا-
اس نے اپنے باپ سے کہا کہ اس کی شادی تبھی ہو گی جب ثریا اس کے جشن میں آکے ناچے گی-
نوابزادہ ثریا بھوپالی کے کوٹھے پر جاتا ہے اور حقارت آمیز لہجے میں اس سے مخاطب ہوتا ہے اور اسے اپنی شادی میں ناچنے کی روپے پیسے کی آفر کرتا لیکن ثریا بیماری کی حالت میں بھی یہ آفر قبول کر لیتی ہے-
نوابزادہ وہاں سے سیدھا دلدار کے پاس جاتا ہے اسے کہتا ہے کہ میں نے تمہاری محبوبہ کی قیمت ادا کردی ہے اب اسے ہر حال میں میں شادی میں آکے ناچنا گانا ہو گا اور تمہیں بھی آنا پڑے گا
تب دلدار اسے تمام حقیقت سے آگاہ کرتا ہے.
یوسف کی شادی کے دن ثریا بیماری کی حالت میں بھی گانے کیلئے اس کے گھر پہنچ جاتی ہے-
"چلو نظراں ملا کے پیار کر لو
ہمارا آخری دیدار کر لو (ناہید اختر)
اُجالا ظُلمَتاں میں کھو رہا ہے
قریب آؤ ہمیں کچھ ہو رہا ہے
یہی اب دل میں ہے ارمان پیارے
تیرے قدموں میں نکلے جان پیارے"
اسی کے ساتھ ہی ثریا اس کے قدموں میں گر دم توڑ دیتی ہے اور یوسف اسکی لاش اٹھا کر چل دیتا ہے اور اسے دلدار والے باغیچے میں دفنا کر اس کی قبر کا مجاور بن جاتا ہے اور پھر وہیں ایک دن دلدار کے ہاتھوں میں دم توڑ جاتا ہے-
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں