Filmstar ijaz durani

       
پاکستان فلم انڈسٹری کا رانجھا

اعجاز درانی

پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ نامور فنکار 1935ء کو جلال پور جٹاں، گجرات میں پیدا ہوئے- انہوں نے B.A کا امتحان جہلم سے پاس کیا-ان کے فلمی کیرئیر کا آغاز 1956ء میں فلم "حمیدہ" سے ہوا-
1957ء میں "بڑا آدمی"ریلیز ہوئی
19اکتوبر 1959ء کو اعجاز نے پاکستان کی مشہور فنکارہ اور گلوکار ملکہء ترنم نور جہاں سے شادی کی-
اعجاز کی کامیابی میں نور جہاں کا بڑا ہاتھ تھا- اسی سال اس نے "سولہ آنے" جبکہ 1960ء میں "سلمہ" اور "ڈاکو کی لڑکی" جیسی فلموں میں کام کیا-
1962ء میں شہید، عذرا اور "برسات میں" جیسی فلموں میں نمودار ہوے جبکہ 1964 کی گہرا داغ، بیٹی، دیوانہ اور چنگاری ہیں-
1967ء میں لوک داستان پر مشتمل فلم "مرزا جٹ" ریلیز ہوئی-یہ فلم بہت کافی کامیاب رہی- اس فلم میں اعجاز اور فردوس نے مرکزی کردار ادا کیے جبکہ دیگر فنکاروں میں عالیہ، اقبال حسن اور الیاس کشمیری شامل ہیں-"لاکھوں میں ایک" یہ فلم بھی سپر ہٹ رہی.
1968ء میں بہن بھائی، میں زندہ ہوں، بیٹی بیٹا، بزدل، دیا اور طوفان، درد اور پاکدامن میں اداکاری کی.
17 اکتوبر 1969ء کو "زرقا" ریلیز ہوئی جو کہ سپر ہٹ رہی اور پاکستان فلم انڈسٹری کی یہ پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کہلاتی ہےی.اسی سال ان کی ناجو، شیراں دی جوڑی، لاچی، عشق نہ پچھے ذات اور تیرے عشق نچایا بھی ریلیز ہوئیں

1970ء میں ایک رومانٹک اور لوک داستان پر مشتمل پنجابی فلم "ہیر رانجھا" ریلیز ہوئی اور یہ فلم اس دور سے لیکر آج تک بڑے شوق سے دیکھی جاتی ہے-اس فلم میں اعجاز نے رانجھے کا کردار بڑے احسن طریقے سے نبھایا- اس کردار کی وجہ سے زیادہ تر لوگ آپ کو آپ کے اصل نام کی بجائے رانجھا کے نام سے پہچانتے ہیں-
ملکہء ترنم اور مسعود رانا کی آواز نے اس فلم کے گیتوں کو لازوال کردیا اس فلم کے گیتوں میں
"تیری ونجھلی دی میٹھڑی تان وے
میں تاں ہو ہو گئی قربان وے"

"تو چور، میں تیری چوری...بلوچا جانیا"

"تیری خیر ہوے نی ڈولی چڑھ جانڑ والیئے
قول ہار کے تے پیار نو بھلانڑ والیئے"
اس فلم میں رانجھے کا کردار اعجاز نے جبکہ ہیر کا کردار "فردوس" نے ادا کیا اور اس فلم کے پرڈیوسر بھی وہ خود تھے-
اس فلم میں اعجاز اور فردوس نے کافی رومانٹک رول ادا کیا اور پھر یونہی فلمی کرداروں میں رومانس کرتے کرتے وہ اپنی حقیقی زندگی میں بھی ایک دوسرے کو چاہنے لگے اور فلمی شوٹنگ سے ہٹ کے بھی ملاقاتیں کرنے لگے اور یہ سلسلہ کافی دنوں سے چلتا آرہا تھا ان کی اس داستان کے چرچے ان کی سابقہ بیوی کی سماعتوں سے ٹکرانے لگے اور  اسی وجہ میڈم نورجہاں اور اعجاز کے رشتے میں دراڑیں پڑنے لگیں-حالانکہ وہ اس وقت تین بیٹیوں کا باپ تھا-حنا، شازیہ اور نازیہ-
وہ فلمی مصروفیات سے ہٹ کے بھی فردوس کی بانہوں میں جھولنے لگا تھا-
نورجہاں نے اعجاز کو فردوس سے دور رکھنے کی بہت کوششیں کیں یہاں تک کے جس فلم میں فردوس کو کاسٹ کیا جاتا وہ اس فلم کے گیت گانے سے انکار کر دیتیں لیکن ان کی تمام کوششیں بے سود رہیں اور 28 اکتوبر 1971ء کو اعجاز نے نور جہاں کو طلاق دے دی اور کچھ عرصے بعد فردوس سے شادی کی.
1971ء میں انکی فلم دوستی ریلیز ہوئی.-اس فلم میں ان کی ساتھی اداکارہ شبنم تھیں-یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی-
اس فلم میں ملکہء ترنم کے گائے ہوئے گیت کافی مقبول ہوئے.
"کہاں ہے تیرا پیار سجنا"
"روٹھے سئیاں کو تو میں اپنے خود ہی منانے چلی آئی"
"چٹھی ذرا سئیاں جی کے نام لکھ دے
حال میرے دل کا تمام لکھ دے"

"یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں
پوچھتی ہیں کب بنے گی تو دلہن"
 اس فلم میں اعجاز نے اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور پرڈیوس بھی کی.
1978ء سے 1983ء تک ہیروئن اسمگلنگ کیس میں وہ جیل میں رہے.
ہیرو کے طور پہ ان کی آخری فلم "کلیار" تھی جوکہ 1984ء میں ریلیز ہوئی
پرڈیوسر کے طور پہ انکی  ہیر رانجھا، دوستی، شعلے اور مولا بخش ہیں







تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Filmstar babra shareef

Film Surreya bhopali